مہر خبررساں ایجنسی-دین و فکر ڈیسک-زینب حسینی روش؛ حج میں اصول دین اور فروع دین ہر دونوں کو اہمیت حاصل ہے۔ حج محض ایک عبادت نہیں ہے بلکہ یہ سماجی اور سیاسی پہلووں کا حامل عمل ہے جس کا چہرہ اس کے مناسک جب کہ روح توحید کو اس کے دماغ کی حیثیت حاصل ہے۔ بنیادی طور پر ہم رہائی پانے، آزاد ہونے، خدا کا بندہ بننے اور ہر کسی کو نا کہنے اور خدا کو لبیک کہنے کےلئے حج کرتے ہیں۔ بندگی کے بھی آداب ہوتے ہیں جس کے لئے شش کی ضرورت ہے، جس طرح رمضان کا مہینہ تقویٰ اور حرام و گناہوں سے پرہیزگاری کا درس ہے، اسی طرح حج توحید کی بنیاد ہے۔ حاجی کو اپنی زبان سے نہیں بلکہ دل خدا سے جوڑنا چاہیے اور توحید کا جذبہ دل و جان میں موجزن ہونا چاہیے۔
نظریاتی توحید اور عملی توحید در حقیقت اس سیر وسلوک آفاقی او انفسی کے اہم ترین پہلو ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر دل کا ایمان اور یہ حقیقت کہ خدا ہر حال میں کارآمد ہے اور یہ جاننا کہ ’’الا مؤثر فی الوجود الا الله ‘‘۔۔۔ اس توحید کی روح کے اثرات ہمارے اعمال اور معاشرت میں ظاہر ہونے چاہئیں۔ نظریاتی توحید کو عملی توحید میں منعکس ہوناچاہیے۔
جس شخص نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ہو اور مالک کعبہ کی مہر اپنے دل میں لگائی ہو اسے چاہیے کہ وہ ہر وہ چیز کو جھٹک دے جس کا رنگ بے دین ہو اور اپنے آپ کو خدا کے حضور حاضر و ناظر دیکھے اور اپنے دل کو خدا کا گھر بنائے۔ اگر دل خدا کا گھر بن جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں اور اب ہم نفسانی خواہشات کے غلام بننے کو تیار نہیں ہیں۔ حج کا سب سے اہم ثمر خدا کا بندہ بننا ہے اور توحید کے عظیم ہیرو ابراہیم خلیل کا عظیم سبق خالص بندگی ہے اور کچھ نہیں۔
نہج البلاغہ کے مترجم اور مفسر ڈاکٹر سید محمد مہدی جعفری نے سورہ حج کی اخلاقی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے مہر رپورٹر کے ساتھ گفتگو میں سورہ حج کے نزول کے بارے میں کہاکہ مشہور ہے کہ سورہ حج ان سورتوں میں سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ آمد کے بعد نازل ہوئیں۔، کیونکہ اس سورہ میں حج کے احکام کا کچھ حصہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے اسے سورہ حج کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: اس سورہ کی پہلی آیت لفظ «یَا أَیُّهَا النَّاسُ…» سے شروع ہوتی ہے، بعض کا خیال ہے کہ یہ مکی سورہ ہے، کیونکہ خدا مکی سورتوں میں اس لفظ سے لوگوں کو مخاطب کرتا ہے، جب کہ مدنی سورتوں میں لوگوں کو لفظ "یا اھاال المومنون..." سے مخاطب کرتا ہے لیکن سورہ حج سے پتہ چلتا ہے کہ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامعین عام لوگ ہیں نہ کہ صرف مومنین۔
مہدی جعفری نے مزید کہا کہ سورہ حج توحید اور قیامت کے مسئلے پر تاکید کرتی ہے، اس لیے اس سورہ کا اصل پیغام مشرکین کے لیے انتباہ ہے کہ وہ اپنی عاقبت اور انجام سے آگاہ ہو جائیں۔
انہوں نے حج میں واجب عبادات کا تذکرہ کرتے ہوئے واضح کیا: سورہ حج میں بعض عبادات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو حج میں ادا کرنا ضروری ہیں، جیسے قربانی کرنا۔ واضح رہے کہ اس دن قربانی خدا کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے لیے ہے اور اس کے ثمرات ضرورت مندوں اور پسماندہ لوگوں تک پہنچنے چاہیے۔
جعفری نے بیان کیا : حج کی حکمت اور فلسفہ غریبوں اور مسکینوں تک کی دستگیری کرنا ہے اور سورہ حج کی آخری آیات میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اچھے کام کرو تاکہ تم نجات پا سکو۔
آخر میں ڈاکٹر جعفری نے کہا کہ وہ عمل نیک کہلا سکتا ہے جو سورہ حج کی آیات کی رو سے لوگوں کو خدا اور معاد یعنی توحید اور قیامت کی طرف توجہ دلانے پر پر ابھار سکے اور یہ کہ دنیا وی زندگی میں باہمی تعاون اور ضرورت مندوں پر توجہ اور احسان کا باعث ہو۔ ایسا نیک عمل انسان کی ترقی اور ترقی کا سبب بنتا ہے۔
آپ کا تبصرہ